تل ابیب پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے کا وقت آگيا ہے/ اسرائیل کی تباہی کے آثار واضح ہوچکے ہیں: اسرائيلی تاریخ داں

تہران/ ارنا- اسرائیلی تاریخ داں "ایلان پاپے" نے اسپین کے ال پائس اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں نسل کشی ایک ایسی حکومت کے ہاتھوں انجام پا رہی ہے جو اس دور کو فلسطین کو تباہ کرنے کا تاریخی موقع سمجھ رہی ہے۔

ایلان پاپے نے میڈرڈ میں ہونے والی ایک کانفرنس کے موقع پر ایک ہسپانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا اسے بس نسل کشی ہی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف قتل عام ہونے والوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ ان اقدامات کے پس پردہ ایک فکر ہے اور وہ یہ ہے کہ غزہ اور فلسطینیوں کو نابود کیا جا سکتا ہے۔

ایلان پاپے نے کہا کہ اسرائيل کی موجودہ حکومت بلکہ صیہونیت کی خواہش رہی ہے کہ اسرائیل، فلسطین کے تصور کے خاتمے کے بعد ایک یہودی ملک بنے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نسل کشی تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے پریشان کن ہے کہ اسرائیل کی حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ ایک ایسا تاریخی موقع اس کے ہاتھ آیا ہے جو اس سے قبل کی حکومتوں کے پاس نہیں تھا اور وہ فلسطین کو نابود کرنا ہے۔

ال پائس کے صحافی نے جب سوال کیا کہ آپ نے چند مہینے قبل کہا تھا کہ صیہونیت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے؛ کیا آپ کا اب بھی وہی نظریہ ہے؟ تو اسرائیلی مصنف اور تاریخ داں ایلان پاپے نے کہا کہ جی ہاں، بالکل۔ میں نے کئی حقیقتوں کا مشاہدہ کیا ہے جو ساتھ مل کر صیہونیت کی آئيڈیالوجی کو ختم کرسکتی ہیں۔ اور اس وقت سے اب تک اس صورتحال میں شدت آگئی ہے۔

تل ابیب پر بین الاقوامی پابندیوں کا وقت آگيا ہے: اسرائيلی تاریخ داں

ایلان پاپے نے کہا کہ مقبوضہ سرزمینوں میں سیکولر اور انتہاپسند یہودیوں اور دائیں اور بائیں بازو کے مابین دراڑ پڑ گئی ہے۔ اسرائیل کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اسرائیل مزید الگ تھلگ پڑ چکا ہے۔ امریکہ کے یہودی معاشرے میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی جانب کوئی رغبت نہیں رہی۔ اور صیہونی اپوزیشن کے بقول اسرائیل کے پاس پیش کرنے کے لیے اب کچھ رہ نہیں گیا ہے۔ اسی لیے اسرائیلیوں کی بڑی تعداد (مقبوضہ سرزمینوں کو) چھوڑ کر جا رہی ہے۔

ایلان پاپے نے کہا کہ یہ اس لیے نہیں کہ وہ فلسطین کے حامی ہوگئے ہیں یا نسل کشی کے خلاف ہیں بلکہ انہیں 50 سال سے زیادہ کا مستقبل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ٹرمپ جیسے پیوپلسٹ لیڈر اور انتہاپسند صیہونی عیسائی بھی صیہونیت کو بچانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

ایلان پاپے نے کہا کہ تل ابیب کے اب بھی کچھ اتحادی ہیں لیکن ڈیموکریٹ پارٹی اور ان کے روائتی حامی ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا ہے وہ اسرائیل کو غرب اردن پر مکمل قبضے اور جنوب لبنان میں مظالم کرنے کی ہری جھنڈی دکھا چکے ہیں لیکن اگر کملا ہیرس بھی منتخب ہوجاتیں تو صورتحال اس سے بہتر نہ ہوتی کیونکہ ان لوگوں نے بھی فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی سرزمینوں پر قبضہ روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ اسرائیل کے سلسلے میں امریکی نظام کی پالیسی ہے۔

انہوں نے عرب ممالک کی جانب سے فلسطین کے سلسلے میں موقف اختیار کیے جانے کے سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عرب دنیا میں لیڈرشپ کا مسئلہ ہے۔ ہم عرب قائد تو دیکھ رہے ہیں لیکن قیادت نہیں۔ یہ لوگ فلسطین کے سلسلے میں عرب عوام کی امنگوں کے عکاس نہیں ہیں لہذا عرب دنیا میں فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی قابل دید تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے اور اس کی وجہ ان کا جمہوریت کے اصولوں سے دور رہنا ہے۔ ایلان پاپے نے کہا کہ عرب دنیا کے ڈھانچے میں تبدیلی بھی فلسطین کے سلسلے میں ان کے موقف میں تبدیلی سے وابستہ ہے۔

ایلان پاپے نے "ٹو اسٹیٹ سلوشن" یا دو ریاستی طریقہ کار کو بھی بین الاقوامی دباؤ کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلیوں کا فریب قرار دیا اور کہا کہ اسرائیلی کبھی بھی فلسطینیوں کو ایک حقیقی ملک دینا ہی نہیں چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ غرب اردن میں جس وقت پہلا یہودی آبادکار داخل ہوا اسی وقت واضح ہوگیا تھا کہ صیہونی، فلسطین نام کا کوئی بھی ملک بننے نہیں دیں گے۔

انہوں نے صیہونیوں کے بائیکاٹ کو مؤثر قرار دیا لیکن کہا کہ یہ اقدام کافی نہیں ہے کیونکہ عوام کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی چاہیے کہ بائیکاٹ تحریک کا حصہ بنیں اور اس وقت تک فلسطینیوں کے سامنے واحد طریقہ کار صرف اور صرف مسلحانہ مزاحمت ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .